حالیہ رپورٹس کے مطابق، چین میں تھوریم (Thorium) کے بڑے ذخائر دریافت ہوئے ہیں، جو جوہری توانائی کے شعبے میں ایک بڑی تبدیلی لا سکتے ہیں۔ قومی سطح پر کی جانے والی ایک تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ یہ ذخائر چین کی توانائی کی ضروریات کو تقریباً لامحدود مدت تک پورا کر سکتے ہیں، جس سے تھوریم ملک کی مستقبل کی توانائی پالیسی کا ایک اہم حصہ بن سکتا ہے۔
تھوریم کی تاریخ اور خصوصیات
تھوریم ایک بلکا تابکار (Radioactive) دھات ہے، جسے 1828 میں سویڈن کے کیمیا دان جونس جیکب برزیلیئس (Jöns Jakob Berzelius) نے دریافت کیا تھا۔ اسے جوہری ایندھن کے طور پر استعمال کرنے کی تجویز کئی دہائیوں سے دی جاتی رہی ہے کیونکہ یہ یورینیم کے مقابلے میں زیادہ مقدار میں پایا جاتا ہے، اس کا جوہری فضلہ کم ہوتا ہے، اور اس سے جوہری ہتھیار بنانے کا خطرہ بھی کم ہوتا ہے۔ تاہم، جوہری توانائی کے لیے پہلے سے موجود یورینیم پر مبنی ڈھانچے کی وجہ سے تھوریم پر زیادہ توجہ نہیں دی گئی۔
امریکہ میں تھوریم پر تحقیق
امریکہ میں تھوریم پر تحقیق 1960 کی دہائی میں شروع ہوئی، اور اس وقت کے مشہور تجربات میں ٹینیسی میں واقع اوک رج نیشنل لیبارٹری (Oak Ridge National Laboratory) میں "مولٹن سالٹ ری ایکٹر ایکسپیریمنٹ" (Molten-Salt Reactor Experiment) بھی شامل تھا۔ لیکن اس وقت کے سیاسی اور صنعتی فیصلوں کی وجہ سے یورینیم کو ترجیح دی گئی، اور تھوریم پر تحقیق کو پس پشت ڈال دیا گیا۔
چین کے لیے تھوریم کے فوائد
چین کی حالیہ تحقیق نے ایک بار پھر تھوریم کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔ ملک میں موجود وسیع ذخائر اور جدید تحقیق کی بدولت تھوریم کو جوہری توانائی کے متبادل ذریعہ کے طور پر اپنانے کے امکانات روشن ہو گئے ہیں۔ اندازہ لگایا گیا ہے کہ چین میں موجود تھوریم کے ذخائر اتنے زیادہ ہیں کہ وہ ملک کی تمام توانائی کی ضروریات کو 20,000 سال سے بھی زیادہ عرصے تک پورا کر سکتے ہیں، جو کہ ایک پائیدار اور طویل مدتی حل فراہم کرے گا۔
چین میں تھوریم ری ایکٹرز کی ترقی
چین نے تھوریم سے چلنے والے "مولٹن سالٹ ری ایکٹرز" (Molten-Salt Reactors - MSRs) بنانے پر کام شروع کر دیا ہے۔ 2021 میں، شنگھائی انسٹی ٹیوٹ آف اپلائیڈ فزکس (Shanghai Institute of Applied Physics - SINAP) نے صوبہ گانسو (Gansu) کے شہر وووی (Wuwei) میں 2 میگاواٹ کا ایک تجرباتی تھوریم ری ایکٹر تیار کیا، جو اکتوبر 2023 میں کامیابی سے فعال ہوا اور جون 2024 میں مکمل صلاحیت کے ساتھ کام کرنے لگا۔ چین کا منصوبہ ہے کہ 2030 تک اس سے بھی بڑا 373 میگاواٹ کا تھوریم ری ایکٹر بنائے، جس کے بعد ملک کے مغربی علاقوں اور بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (Belt and Road Initiative) میں شامل ممالک میں اس ٹیکنالوجی کو متعارف کرایا جائے گا۔
عالمی توانائی کے شعبے میں ایک بڑی تبدیلی
اگر چین تھوریم پر مبنی جوہری ری ایکٹرز کو کامیابی سے متعارف کرانے میں کامیاب ہو جاتا ہے، تو یہ عالمی توانائی کے شعبے میں ایک بڑی تبدیلی ثابت ہو سکتی ہے۔ تھوریم توانائی کا ایک ایسا ذریعہ فراہم کر سکتا ہے جو روایتی یورینیم پر مبنی جوہری توانائی کے مقابلے میں زیادہ ماحول دوست، محفوظ اور پائیدار ہوگا۔ چین کی اس پیش رفت سے دنیا بھر میں تھوریم پر مزید تحقیق اور سرمایہ کاری کے امکانات بھی بڑھ سکتے ہیں، جو توانائی کے ایک نئے دور کا آغاز ہو سکتا ہے۔
No comments:
Post a Comment